جیسے جیسے خواتین میں افزائش حسن کا شوق بڑھتا جارہا ہے‘ تجارتی بنیادوں پر سنگھار مراکز یعنی بیوٹی پارلرز کا کاروباربھی ترقی کر رہا ہے۔ آئے دن نئے نئے بیوٹی پارلر کھل رہے ہیں اور خواتین ومرد کی ایک بڑی تعداد اس پیشے سے وابستہ ہو رہی ہے۔ لیکن حال ہی میں برطانیہ میں امراض جلد کے دو ماہرین ڈاکٹر بروس پولاک اور ڈاکٹر مارک و لکسن نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بات بتائی ہے کہ نرسوںاور بیکری میں کام کرنے والوں کی طرح بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والوں اور آرائش گیسو کے پیشے سے تعلق رکھنے والوں کیلئے بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ ورم جلد یا التہاب ادمہ میں مبتلا ہو جائیں۔ یہ شکایت ہاتھ کے علاوہ ہر ایسے حصہ جسم میں ہو تی ہے جہاں کام کے دوران استعمال ہونے والا کیمیائی مرکب لگ گیا ہو۔
ایک جائزے کے مطابق بال بنانے اورسنوارنے کا کام کرنے والوں میں سے ایک تہائی ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس کام میں استعمال ہونے والے جدید رنگوں اور کیمیائی مرکبات سے الرجی ہوتی ہے اور ہر سال اس پیشے سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار لوگوں میں سے تقریباً ڈیڑھ سو ورمِ جلد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ البتہ جن لوگوں پر یہ کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں ان پر شاذ و نادر ہی ان کا اثر ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں لگانے سے پہلے اتنا ہلکا اور پتلا کر لیا جاتا ہے کہ ان کی شدت بہت کم ہو جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ انہیں لگانے کے بعد جلد ہی دھو دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والوں کے ہاتھ دن میں اپنے کام کے دوران کافی دیر دیر تک گیلے رہتے ہیں اور رقیق ہونے سے پہلے اکثر کیمیکل ان کی جلد پر لگ جاتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ زیادہ مسئلہ شیمپو پیدا کرتے ہیں۔
زلف سنوارنے اور تراشنے والوں کے ہاتھوں میں ورم جلد کے بظاہر دو اسباب ہیں: اکثر تو بالوں کے چھونے سے ان کے ہاتھوں میں سوزش پیدا جاتی ہے اور اکثر کیمیائی مرکبات کے جلد پر لگ جانے سے الرجی پیداہو جاتی ہے۔ خواہ یہ کیمیکل بالوں کے دھونے کیلئے استعمال ہوں یا بالوں کو نئے انداز سے سنوارنے اور جمانے کیلئے یا پھر سفید ہونے والے بالوں کو رنگنے کیلئے۔
بیوٹی پارلرز میں کام کرنا ان لوگوں کیلئے نہایت نامناسب ہے جو بچپن میں چنبل یا دوسری کسی الرجی کے مریض رہے ہیں۔ کیوں کہ اگر کسی ایسے شخص کوبیوٹی پارلرزمیں اپنے کام کے دوران ورم جلد ہو جائے تو اس مرض سے نجات ملنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ البتہ جن لوگوں کو خفیف نوعیت کا ورم جلد ہوتا ہے وہ اگر اپنے ہاتھوں کو شیمپو میں لتھڑا رکھنے اور کیمیائی مرکبات سے بچا کر رکھیں تو وہ اس الرجی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اس پیشے سے تعلق رکھنے والوں کے ہاتھ کی جلد اکثر سخت اور کھردری ہو جاتی ہے اور اسے دھونامشکل ہو جاتا ہے۔ طویل عرصے سے زیادہ دنیا بھرمیں خواتین بالوں کو رنگنے کیلئے حنا یا مہندی استعمال کرتی رہی ہیں۔ حنا نسبتاً کم نقصان دہ ہے اور اس سے ورم جلد یا الرجی کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔ البتہ جدید کیمیکل جو بالوں کو رنگنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں‘ حنا سے بے حد مختلف ہیں۔ ان سے نہ صرف ورم جلد کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات دیگر نوعیت کے جسمانی ردعمل کا امکان بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک ماہر معالج نے اک ایسے زلف تراش کا ذکر بھی کیا جس پر نقاہت اور متلی کے شدید حملے ہوتے تھے۔ جن کے بعد وہ بے ہوش ہو جاتا اور اس کا چہرہ نیلا اور متورم ہو جاتا تھا۔ رات بھر آرام کرنے کے بعد وہ عارضی طور پر ٹھیک ہو جاتا تھا۔ لیکن جب اس نے یہ پیشہ ترک کر دیا تو اس کے تین ماہ بعد وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔ بدقسمتی سے دستانوں سے ہاتھوں کی اتنی حفاظت نہیں ہوتی جتنی کہ لوگ عام طور سے سمجھتے ہیں۔ بالوں کو رنگنے اورسنوارنے کیلئے جو رنگ اور کیمیکل آج کل استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ کئی طرح کے دستانوں سے گزر کر ہاتھوں میں سرائیت کر جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود دستانوں میں پائے جانے والے کیمیکل بھی انہیں پہننے والے کیلئے الرجی کا باعث بن سکتے ہیں۔
جو والدین ہر وقت فکر مند رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بچے کو کوئی بیماری نہ لگ جائے یا کوئی انفیکشن ان پر اثر نہ کر جائے وہ بچے کے ساتھ بھلائی نہیں کر رہے‘ کیوں کہ وہ بچے جنہیں ہمہ وقت انفیکشن سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں‘ الرجی کی زد میں زیادہ رہتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا پہلے سے خیال تھا کہ بہت زیادہ صفائی بھی بچے کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے اور اس جدید تحقیق سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔ ان تحقیق کاروں کی رائے ہے کہ جن بچوں کو اپنی زندگی کے پہلے چھ ماہ میں انفیکشن سے خاصا واسطہ پڑتا ہے انہیں بڑے ہو کر الرجک‘ چنبل میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں دمے کا مرض بچوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا دس گیارہ سال قبل ماہرین نے اس کی وجوہ معلوم کرنے کی ٹھانی۔ اپنی تحقیق کے دوران انہیں یہ شبہ بھی ہوا کہ دور جدید کے والدین حفظ صحت کے اصولوں پرجب زیادہ ہی کار بند ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو بات بگڑنے لگتی ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ عمر کے شروع میں بچے کو جن انفیکشن سے واسطہ پڑتا ہے وہ اس کے جسم کے مدافعتی نظام کو جراثیم سے مقابلے کی تعلیم دیتے ہیں۔ تحقیق کے دوران ان سائنس دانوں کو اندازہ ہوا کہ جن بچوں کو انفیکیشن سے بہت زیادہ بچانے کی کوشش کی گئی تھی ان کیلئے آگے چل کر چنبل (Eczema) کا امکان نسبتاً ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گیا تھا۔ تاہم چنبل کے انفیکشن کا اتنا زیادہ امکان صرف ان بچوں کیلئے پایا گیا جن میں تغیر پذیر جین موجود تھا۔ جن بچوں میں یہ جینز نہیں تھے یعنی ان کے جینز معمول کے مطابق تھے انہیں انفیکشن سے واسطہ پڑنے یا نہ پڑنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
جن پروفیسر صاحب نے ان تحقیق کاروں کی قیادت کی انہوں نے لندن کے اخبار ٹیلی گراف کو بتایا کہ ایسے شواہد میں اضافہ ہو رہا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے سے بعد میں چنبل جیسی کیفیت سے واسطہ پڑتا ہے لیکن اس میں موروثی عوامل کا بھی دخل ہے۔
پروفیسر موصوف کے خیال میںانفیکشن سے واسطہ پڑنے کے حوالے سے بچے کی زندگی کے پہلے چھے ماہ سب سے اہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تحقیق کا یہ مطلب نہیں کہ ہم زمانہ قدیم کے دور کی طرف لوٹ جائیں کہ جب حفظان صحت کی جانب سے بے توجہی کے سبب بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ تھی۔ بات بس اتنی ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کی اتنی زیادہ فکر نہ کریں کہ یہ خود ایک مسئلہ بن جائے۔ توازن قائم رکھنا بہر طور اہم ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے‘ تاہم ان کی تحقیق کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ اس نظریے سے مطابقت رکھتے ہیں کہ الرجی پیدا کرنے میں مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
طبی ماہرین خون کے معائنے سے پتا چلا سکتے ہیں کہ بچوں کوانفیکشن لگنے والے ذرائع سے کتنا محفوظ رکھا گیا ہے۔ نیز یہ کہ اس کے نظام میں کتنے اور کس قسم کے صد اجسام (اینٹی باڈیز) ہیں؟
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 525
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں